یہ بلاگ تلاش کریںMusarratsyed Ali

جمعرات، 15 جون، 2023

فرعون نہ بنیں

 


اپنی کی ہوئی غلطی ہماری  اپنی  ہی مایوسی کا باعث بنتی ہے کیونکہ غلطی  سے کئے ہوئے عمل کا نتیجہ ہماری توقعات کے مطابق نہیں نکلتا، گویا ہمارا عمل ہماری ممکنہ توقعات سے  ہم آہنگ نہیں   ہوتا۔کسی بھی عمل سے پہلے اس کا نتیجہ کسی کو بھی معلوم نہیں ہوتا بلکہ ہر انسان اپنی مرضی کے نتیجہ کے بارے میں خوش فہمی میں مبتلا ہوتا ہے۔اگر اس کو معلوم بھی ہو کہ  انجام کیا ہونا ہے، پھر بھی دانستہ طور پر اپنا رویہ تبدیل نہیں کرتا  کیونکہ اس نے منزل حاصل کرنے کا آسان راستہ پہلے سے ہی اپنے ذہن میں چُنا ہؤا ہوتا ہے۔البتّٰی عمل کی تکمیل اور  اس کے نتیجہ کے بعد وہ اپنے آپ کو دل ہی دل میں برا بھلا  ضرور کہتا ہے ۔خالقِ کائنات کا طریقہ کار بالکل بھی ایسا نہیں بلکہ اس نے اپنا ہر عمل اور اس کا نتیجہ ازل سے طے کر رکھا ہے، توقعات رکھنا اس کا شیوہ نہیں، یہ محض ہم انسانوں    کو اختیار دیا گیا ہے  کیونکہ اچھے برے ، نیک و بد اور صحیح غلط  دونوں کی تمیز عطا کر کے ہم انسانوں کو خود مختاری دے دی گئی۔ہاں میں نے جو سن رکھا ہے اور عملی تجربہ بھی ہے کہ اچھا  یا نیک کام کرتے وقت خالق کی تھوڑی بہت مدد شامل ہو جاتی ہے میرے عمل میں جب کہ برے  کام کرتے وقت  ایک عجیب سا دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں کوئی سن نہ لے، دیکھ نہ لے ، پکڑا نہ جاؤں وغیرہ وغیرہ۔یہ ہوتی ہے اصل میں ایک وارننگ جس کو نظر انداز کرکے میں غلط یا برا کام کر گذرتا ہوں لہٰذا نتیجہ بالکل غیر یقینی ہوتا ہے، کبھی    توقع کے مطابق اور کبھی بر خلاف۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں کون بتاتا ہے ہم  نے کوئی غلطی کی ہے اور کس وقت بتاتا ہے، یہ سمجھنا کوئی اتنا پیچیدہ مسئلہ نہیں۔ہماری پیدائش کے وقت جہاں ہمیں جسمانی اعضاء تحفہ میں ملے وہیں کچھ غیر مرئی  یا روحانی عناصر بھی ہمارے جسم کے اندر نصب کر دئیے گئے جن کا کنٹرول ہمیں نہیں  دیا گیا۔ان اعضاء میں سے اس وقت ایک پر ہی روشنی ڈالی جائیگی جس کا نام ہے "ضمیر"۔ ہمارے جسم کے نظر آنے والے یا طبعئی اعضاء میں دل اور نہ نظر آنے والے روحانی یا غیر مرئی عناصر میں ضمیر، یہ دو نوں ہماری ماں کے پیٹ کے اندر ہمارے جسم کی تکمیل کے دوران  اس میں روح پھونکنے کے فورً بعد ہی  نصب کر دئے جاتے ہیں اوریہ دونوں اپنا    کام شروع کر دیتے ہیں ان میں سے ایک بھی کام کرنا بند کر دے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ ہماری موت واقع ہوگئی ہے۔ ماں کے پیٹ کے اندر ہمارے وجود میں آتے ہی ہمارا دل دھڑکنا شروع کر دیتا ہے اور ہماری موت واقع ہونے تک دھڑکتا رہتا ہے جب کہ ہمیں شعور  آتے ہی ضمیر متحرک ہو جاتا ہے اور یہ بھی ہماری موت کے وقت تک کام کرتا رہتا ہے۔ دونوں کا کنٹرول تو ہمارے پاس نہیں ہوتا لیکن ان کے ساتھ زبردستی کر کے کام سے روکا جاسکتا ہے یعنی دل کی دھڑکن کو زبردستی روکا جاسکتا ہے اور ضمیر کا ہمارے ہر عمل کی جانچ پڑتال کا عمل روک دیناہمارے اختیار میں ہوتا ہے۔گویا ہم ان دونوں عناصر کو فطرت کے نظام میں اپنا کردار ادا کرنے  سےروکتے ہیں تو ایک کا نتیجہ" موت"  کی صورت میں اور دوسرے کا انجام "مُردہ"   ہونے کی صورت میں سامنے آتا ہے۔

کسی انسان کو کوئی اختیار دینے کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ وہ اپنے آپ کو خدا سمجھ بیٹھے جیسے تاریخ میں فرعونوں نے اپنے آپ کو سمجھا، ان کا انجام کیا ہؤا ؟ دنیا آج تک اس بات کی تحقیق میں سرکرداں ہے  جب کہ اللہ نے اپنی کتاب میں صاف صاف بتا دیا کہ ان سب کا انجام عبرتناک ہؤا۔ لہٰذا فطرت کے نظام کے تحت ہی ہمیں اپنے دل اور اپنے ضمیر دونوں کو کام کرنے دینا چاہئے تاکہ ہم  تاریخ میں عبرت نامہ نہ بن جائیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

A Historical Day 9 May 2023

  :مئی 9،  2023  کے حوالے سے چند گذارشات   فطرت کے اصولوں سے ہٹ کر کچھ کرنا اتنا آسان بھی نہیں اور اگر کوئی ایسا کرنے کی جراؑت کرے تو اس کا ...