حضرت جبرائیل علیہ السلام کو کتاب سپرد کی گئی ہے کہ وہ اسے رسولوں تک لے
جائیں ، بارش اور زمین کے نباتات حضرت میکائیل کے سپرد ہیں ، جہنم کے نگہبان حضرت
مالک، جنت
کے داروغہ اور خازن کا نام رضوان ، قبر میں سوال کرنے والے
فرشتوں کو منکر نکیر کہا جاتا ہے، حضرت میکائیل علیہ السلام بارش برسانے اور لوگوں
کی روزی وروٹی کے انتظام پر، حضرت اسرافیل علیہ السلام قیامت کے دن صور پھونکیں گے
اور حضرت عزرائیل علیہ السلام روح قبض
کرنے پر مامور ہیں۔گویا خالقِ کائنات نے اپنا نظام چلانے کے لئےایک منظم طریقے پر
اپنے کارندے مقرر کئے ہوئے ہیں۔ ہر کارندہ اپنا
اور محض اپنا کام سر انجام دیتا ہے ، کبھی کوئی کسی کے کام میں دخل اندازی
کرتا ہے اور نہ ہی کسی دوسرے کے کام پر تبصرہ ورنہ سوچیں کہ کسی روز اسرافیلؑ کہیں
کہ میں آج سے میکائیلؑ کا کام کرتا ہوں اور وہ میری ذمہ داری نبھائیں ۔ اس ایک بد
نظمی کے باعث سارا نظام درہم برہم ہو جائیگا یا نہیں۔ ہم کیا کر رہے ہیں ؟
انجینئیر بیماریوں کے علاج کے بارے میں اپنے ادارے میں آن ڈیوٹی بیٹھے تبصرے کر
رہے ہوتے ہیں اور ڈاکٹرز اسپتالوں میں
ڈاکٹرز روم میں بیٹھے سیاست پر تبصرے فرماتے پائے جاتے ہیں۔ بڑے بڑے کاروباری
حضرات موٹر ویز اور پلوں کے ڈیزائین اور تعمیر پر نکتہ چینی کرکے اطمینان محسوس
کرتے ہیں جب کہ بچت بازاروں میں بنیادی
اشیائے خوردونوش خریدنے والے ماہرِ معاشیات کی مانند تبصرہ کے لئے کسی ٹی
وی چینل کے رپورٹر اور کیمرہ مین کو ڈھونڈنے میں اپنا وقت گزارتے پائے جائیں گے تو
نتیجہ یہی نکلے گا جو آج ہمارے سامنے ہے۔
گویا فطرت کے نظام کا نظم و ضبط دیکھ کر بھی ہم
کچھ نہیں سیکھ پائے اور ہم نے من حیث
القوم ، تعلیم یافتہ ہوں یا جاہل، سب نے فطرت کے نظام سے غیر آہنگی کے ریکارڈ توڑ رکھے ہیں جس کے باعث ابھی تک
ترقی پذیر ملکوں میں بھی اپنا شمار نہیں کروا پائے بلکہ پس ماندہ اقوام میں شامل
کئے جاتے ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں