یہ بلاگ تلاش کریںMusarratsyed Ali

جمعہ، 23 جون، 2023

ذرائع آمدورفت کی روانی میں خلل

 

ایک نہایت اہم نکتے کی جانب قارئین کی توجہ مبذول کرانا چاہوں گا کہ خالقِ کائنات کی ہر تخلیق کا ظہور  پیدائش سے لے کر  خاتمے تک اینالاگ سسٹم کے تحت ہے نہ کہ ڈیجیٹل سسٹم کے۔ سورج، چاند اور ستارے  تمام کے تمام ایک سوئچ سے منظرِ عام پر نہیں آجاتے بلکہ رفتہ رفتہ اپنی مقرر کردہ رفتار و وقت سے سفر کرتے ہیں جو اینالاگ سسٹم کا واضح ثبوت ہے۔ پہاڑ، جنگل، صحرا، سمندرسب     ہی اینالاگ طریقے پر بڑھتے اور گھٹتے ہیں ۔ سیلاب ہوں یا زلزلے ایک سوئچ سے آن آف نہیں ہوتے بلکہ رفتہ رفتہ خالق کی ہدایات کے مطابق اپنی کاروائی شروع کرکے مقرر کردہ وقت اور جگہ پر اختتام کو پہنچتے ہیں۔جدید ترین ٹیکنالوجی  آرٹیفیشل انٹیلیجنس ہمارے ذہن کی اختراع ہے خالقِ کائنات کے ہاں ایسا کوئی تصور موجود نہیں ، اس کا ہر کام اس مخلوق کو بہ نفسِ نفیس کرنا پڑتا ہے جس کو وہ تفویض کیا گیا ہو خواہ وہ فرشتہ ہو یا ایک جرثومہ۔کسی مخلوق کی پرچھائیں بھی  اپنے آپ حرکت نہیں کر سکتی۔

یہ صحیح ہے کہ انسان اپنی قدرت سے کچھ نہیں کر سکتا ، تمام تر سائنس و ٹیکنالوجی کی ایجادات  خالقِ کائنات کی عطا کردہ ذہانت کا نتیجہ ہیں جن کا استعمال بھی ہم مخلوقات کی منشا پر چھوڑ دیا گیا۔ کوئی پرندہ اپنا گھونسلہ  پہاڑ و جنگلات چھوڑ کر سمندر میں بنانے چلا جائے تو انجام کا وہ خود ذمہ دار ہوگا اور کوئی انسان  ٹیکنالوجی کے ذریعے دھوکہ دہی و بے ایمانی کرے تو اس کا خمیازہ بھی خود اس کو ہی بھگتنا پڑے گا۔ آرٹیفیشل انٹیلیجبس کے ذریعے  ذرائع آمدورفت کی روانی میں خلل یا سماجی نظام میں ناپسندیدہ فعل رونما ہونے کی صورت میں ہم خود اس کے ذمہ دار ٹھہرائے جائیں گے۔  

ہمارا ہر وہ عمل جس  کی وجہ سے  خالقِ کائنات کی زمین  یا اس کی ماحولیات کو گزند پہنچے ، بالکل ایسا ہی ہے جیسے خالق کی تمام مخلوق کی زندگی کو خطرہ لاحق ہو گیا ہو۔زمین ، ماحولیات یا  خالق کی مخلوقات کے ساتھ وہ خود چاہے جو مرضی سلوک کرے،اس کی اپنی تخلیق ہیں ، وہ قادرِ مطلق ہے اور جانتا ہے اس کے  ہر عمل کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ہمیں نہ تو اختیار ہے اور نہ ہی اس کا علم کہ انجام کس قدر خوفناک ہوسکتا ہے۔ فہم وفراست سے ہمیں نواز کر خود مختار کر دیا  اور انجام سے آگاہ کردیا ، اب ہمارے ہاتھ میں مستقبل کا ہر لمحہ ہے۔ ہم اپنی زندگی بھر کے اعمال کا کیلنڈر بنا کر نفع  سمیٹیں یا نقصانات کی خندقیں کھود ڈالیں۔ہمارا ہر عمل ایک آفاقی پیمانہ پر جانچا جائے تو معلوم پڑے گا کہ ہم کتنا نفع کما پائے اور کتنے سودے گھاٹے کے کئے۔وہ آفاقی پیمانہ ایک ہی ہے کہ ہم اپنے حواسِ خمسہ سے حاصل کیا ہؤا ڈیٹا اپنے دماغ کے اندر پروسیس کر کے اپنے تمام جسمانی اعضاء کو کیسے استعمال کرتے ہیں۔ آج کل کی ڈیجیٹل زبان میں   "1"   کا مطلب ہے فطرت کے نظام سے ہم آہنگی اور "0"  کا مطلب ہے غیر آہنگی۔

بہت مشکل کام ہے کہ دل چاہ رہا ہو بغاوتی رویہ اختیار کریں ، خالقِ کائنات کا تو کچھ بگاڑ نہیں سکتے، کسی طریقے سے اپنی ہی جان دے دیں۔لیکن ایسے مقام پر  سر تسلیم خم کر کے یہ کہیں  "جو تیری مرضی"، یقین کیجئے بے حد سکون ملے گا۔ ذرا ہم اپنے گریبان میں دیکھیں تو حقیقت عیاں ہو جائیگی کہ جب تک ہماری خواہشات پوری ہوتی چلی جائیں اور کامیابیاں نصیب ہوتی رہیں تو ہمیں احساس ہی نہیں ہوتا  کہ نظام کون چلا رہا ہے، جوں ہی کسی قسم کی ناکامی ہوئی یا کوئی خواہش رد ہوئی  تو فوراً  دعا کے لئے ہاتھ اٹھ جاتے ہیں  اور گڑ گڑانا شروع کر دیتے ہیں، یعنی بے بس ہوتے ہی خالقِ کائنات نظر آ جاتا ہے۔کاش ہم بے بسی سے پیشتر  "جو تیری مرضی" کا وِرد کرتے رہیں تو کامیابی پر غرور ہو گا نہ ہی ناکامی میں بغاوتی رویہ جنم لے گا۔ 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

A Historical Day 9 May 2023

  :مئی 9،  2023  کے حوالے سے چند گذارشات   فطرت کے اصولوں سے ہٹ کر کچھ کرنا اتنا آسان بھی نہیں اور اگر کوئی ایسا کرنے کی جراؑت کرے تو اس کا ...